Farida

Add To collaction

اں نے بارہ سال کے بیٹے کو





 اں نے بارہ سال کے بیٹے کو 





: ماں نے بارہ سال کے بیٹے کو سکول کے لیے تیار کیا ناشتہ کرنے کے بعد اسکا لنچ اسکے بیگ میں ڈالا جو ایک جوس پراٹھا اور آملیٹ پہ مشتمل تھا۔ بچے نے بیگ اٹھایا اور ماں نے زمین پہ بیٹھ کر اسکو سینے سے لگا کر پیار کیا
اس نے ماں کے کان میں ہلکے سے کہا
" مما آج میں لیٹ آونگا "
" وہ کیوں میرے چندا"
ماں نے واری جاتے اسکے چہرے پہ بوسہ دیتے ہویے مسکرا کر پوچھا
" مما میں نے آج خدا کو ڈھونڈنا ھے اسلیے میں دیر سے آونگا "
" میرے جگر کے ٹوٹے خدا کو تم کیسے ڈھونڈوں گے وہ تو نظر نہیں آتا ناں "
ماں نے شفقت سے اپنے معصوم بچے کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہویے کہا لیکن بچے نے کوئی جواب نہیں دیا اور دوڑ کر باہر گیٹ کی طرف چلا گیا۔ اور اسے بھاگتے ہوئے دیکھتی ماں مسکرا دی۔
سکول سے واپس کے بعد بچے نے ایک بینچ پہ ایک غریب بوڑھی اماں جی کو دیکھا جو پریشان بیٹھی ہوئی تھی۔ بھوک اور غربت اسکے چہرے پر عیاں تھی۔ بارہ سال کا بچہ اسکے پاس بینچ پہ بیٹھ گیا اور اپنا ناشتہ نکال لیا۔
اس بوڑھی مسکین اماں جی نے ترستی ہوئ نگاہوں سے روٹی کی طرف دیکھا اور اپنا منہ دوسری طرف کر کے بھوک چھپانے لگی۔
بارہ سال کے معصوم نونہال نے پراٹھے کو ہاتھ میں پکڑا اور کچھ سوچا پھر اس نے پراٹھا اور آملیٹ بڑھا کر بوڑھی مسکین لاچار اور غریب اماں جی کی طرف بڑھا دی۔
ڈوبتے کو تنکے کا سہارہ ، بوڑھی اماں جی نے مسکرا کر وہ قبول کرلیا۔ اسکے بعد بارہ سال کے معصوم فرشتہ نما بچے نے بیگ میں ہاتھ ڈالا اور ہنستے مسکراتے ہویے جوس کی بوتل بیگ سے برآمد کرلی جیسے آلہ دین کے چراغ سے جن برآمد ہوتا تھا۔اس نے ننھے ہاتھوں سے پورا زور لگا کر جوس کا ڈھکن کھولا اور بڑھا کر اس مسکین عورت کو مسکراتے ہویے دیکھا۔
بوڑھی عورت بھوکی بھی تھی اور پیاس کی ستائی ہوئی بھی اس نے ایک ہی سانس میں سارا جوس پی لیا۔ کھانا کھاتے بوڑھی اماں بچے کو دیکھتی اور بچہ بوڑھی کو۔ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکراتے ۔
کھانا ختم کرنے کے بعد بچے نے اپنا بیگ اٹھایا اور گھر کی طرف چلتا بنا
گھر پہنچ کر دروازے پہ گھنٹی بجایی تو ماں نے مسکرا کر اسکو بانہوں میں بھر لیا ماں نے اسکے گال پہ پیار کیا اور پوچھا
" میرے لال کو اج خدا ملا کہ نہیں "
" ہاں مما خدا ایک عورت ہے وہ بہت اچھی ہے اور جب وہ مسکراتی ہے تو اپ کی طرح لگتی ہے بلکہ خدا کی مسکراہٹ تو آپ سے بھی زیادہ پیاری ہے"
______________
دوسرا سین
بوڑھی اماں جی پراٹھا انڈہ کھا کر بینچ سے اٹھی اور اپنی راہ لی چلتے چلتے بوڑھی اماں کافی تھک گئ تھی تو وہ ایک جگہ بینچ پر بیٹھ گئیں جہاں مزید ایک عورت بیٹھی ہوئ تھی۔
بوڑھی اماں کافی خوش تھی اور مسکرا رہی تھیں
" آپ کچھ زیادہ ہی خوش دکھائی دے رہی " پہلے سے موجود عورت نے بوڑھی اماں سے پوچھا
" ہاں میں آج کافی خوش ہوں پتہ ہے آج میں نے خدا کے ساتھ ملکر بہت اچھا لنچ کیا ہے۔ تمہیں پتہ ہے خدا دراصل ایک معصوم بچہ ہے بہت ہی پیارا اور چھوٹا سا۔ میری توقعات سے بھی چھوٹا بچہ اتنا مہربان "
__________________
تیسرا سین
قیامت کا منظر ہے
آقائے دو جہاں رحمت اللعامین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہیں اپنی امت کی شفاعت کے لیے۔
اسی دوران اللہ جل و شان ایک انسان کو بلایے گا اور اس سے شکوہ کرے گا
" میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا نہیں کھلایا "
" میں بیمار تھا تم نے میری عیادت نہیں کی "
" میں حاجت مند تھا تم نےمیری حاجت پوری نہیں"
وہ انسان کہے گا
"یا اللہ آپ کی عیادت یا بھوک یا حاجت میں کیسے پوری کرسکتا تھا آپ کو کہاں ڈھونڈتا آپ تو خود حاجت پوری کرنے والی ذات ہیں"
اللہ فرمایے گا
" میرا فلاں بندہ بیمار تھا تو اسکی عیادت کرتا تو مجھے وہاں پاتا میرا فلاں بندہ بھوکا تھا تو اسکو کھانا کھلاتا تو مجھے وہاں پاتا میرا فلاں بندہ حاجت مند تھا تم نے اسکی حاجت پوری کی ہوتی تو تم مجھے اسکے پاس پاتے
تم نے مجھے کھبی ڈھونڈنے کی کوشیش ہی نہیں کی میں تم سے بڑا ناراض ہوں ۔
اس بارے میں ضرور سوچیں کہ آپ کا رویہ کیسا ہے دوسروں کے ساتھ ان کی ضرورت کے وقت ؟؟
مزہ تب ہے جب آپ خود مجبور ہو کر بھی کسی کی مدد کریں..!!
فرح 




   1
0 Comments